مصائب کی سر پر کڑی دھوپ ہے

بُلا لو مدینے بڑی دھوپ ہے

یہاں ہجر میں چھاؤں بھی خار ہے

وہاں پھول کی پنکھڑی، دھوپ ہے

جو خضریٰ کی چھاؤں نے دی ہے صدا

سمجھ لو گھڑی دو گھڑی دھوپ ہے

تمازت کی برچھی جو لذت میں ہے

ترے در کی دل میں گڑی ُدھوپ ہے

ہو جس کے بھی پیشِ نظر در ترا

کہاں اس کے پیچھے پڑی دھوپ ہے

جو زائر ہیں طیبہ کے اُن کے لئے

چنبیلی کی روشن لڑی دھوپ ہے

ستارہ سا ہے جو ،ترے شہر کی

مژہ پر ذرا سی اَڑی دھوپ ہے

یہ گنبد پہ ہے جو سنہری رِدا

نگینے میں عادل جڑی دھوپ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]