ملالہ یُوسف زئی کے نام

ایک اُمید پسِ دیدہء تر زندہ ہے

فاختہ خُون میں لت پت ہے، مگر زندہ ہے

ورنہ گُل چیں سبھی کلیوں کو مسل ڈالے گا

غیرتِ اہلِ چمن ! جاگ، اگر زندہ ہے

ریزہ ریزہ ہیں مرے آئنہ خانے لیکن

مُطمئن ہوں کہ مرا دستِ ہُنر زندہ ہے

سانحہ یہ ہے میرا رختِ سفر لُوٹا گیا

معجزہ یہ ہے میرا شوقِ سفر زندہ ہے

کٹ گریں ایک دو شاخیں تو کوئی فکر نہیں

پھر نمُو پائے گا اِک روز ، شجر زندہ ہے

آشیاں پُھونک دیا بُغض کے شعلوں نے مگر

راکھ میں اب بھی محبت کا شرر زندہ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]