!فروغ
وہ تجھ سے ڈر گئے تھے
!فروغ
تُو سر بسر جنُوں تھی
سو عقل و دانش کے دیوتا تجھ سے ڈر گئے تھے
اندھیر نگری کے حکمرانوں کو
تیری آنکھوں کی روشنی میں
دکھائی دیتی تھی موت اپنی
ازل کے اندھوں کو
تیرے ماتھے کے چاند سے خوف آرہا تھا
ترے سخن میں وہ آگ روشن تھی
جس کےسُرخ و سپید شعلےتمام ایران میں عیاں تھے
ہر ایک آتش کدے کی جاں تھے
تری صدا سے جہان_مکر و ریا کے سُلطاں لرز گئے تھے
!فروغ
وہ تجھ سے ڈر گئے تھے
!فروغ
دُنیا فریب خانہ ہے آب و گل کا
سو تیرے دل کا جمال — سچا جمال — کیسے نہ قتل ہوتا
تُو زندہ رہتی
تو سارے خود ساختہ خداؤں کو مار دیتی
سیاہ باطن منافقوں کی چمکتے چہرے اُتار دیتی
سو حاسدوں کے دماغ اندیشہ ہائے فردا سے بھر گئے تھے
!فروغ
وہ تجھ سے ڈر گئے تھے