ملیں گے رہنما ایسا نہیں ہے

کہ الفت راستہ ایسا نہیں ہے

جو خود جل کر کرے دنیا کو روشن

یہاں کوئی دیا ایسا نہیں ہے

کبھی ان پھول سے ہونٹوں پہ ٹھہرے

ہمارا تذکرہ ایسا نہیں ہے

چلو مانا اسے تھی فکر میری

مگر وہ پیار تھا ایسا نہیں ہے

کہا میں نے مجھے تم چھوڑ دو گے

مگر اس نے کہا ایسا نہیں ہے

وہ اب کیسا ہے یہ مجھ سے نہ پوچھو

کہ اس سے رابطہ ایسا نہیں ہے

اسے تکلیف ہو اور میں نہ تڑپوں

ہمارا فاصلہ ایسا نہیں ہے

جلا کر آگ میں لوگوں کو، خوش ہو

سنو، میرا خدا ایسا نہیں ہے

کوئی موقع اسے دے کر تو دیکھو

کہ عاطفؔ پارسا ایسا نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]