مل چکی شکل یا نہ مل پائی
کوزہ گر ہم تو چاک سے اترے
ہم بگولوں پہ شہسوار ہوئے
خاک ہو کر ہی خاک سے اترے
عکس اپنے پروں کا چمکا تو
پانیوں پر چھپاک سے اترے
جسم پگھلے ہوس کی دہشت سے
پیرہن اس کی دھاک سے اترے
پھر ہوا یوں کہ حافظے سے ترے
ہم بہت انہماک سے اترے
دل میں اترے تھے جس خلوص کے ساتھ
دل سے اتنے تپاک سے اترے
شاعری ترک ہو چکی آخر
مسندِ کرب ناک سے اترے