منقبت سیدنا امام حسینؓ

سبطِ سرکارِ دوعالم کا کہاں ثانی ہے

جیسا منصب ہے بڑا ویسی ہی قربانی ہے

ایک اظہارِ’’ فنا فی اللہ‘‘ ہے سجدا تیرا

منزلِ عشق تو آقا تری پیشانی ہے

ہر حوالہ ہی ترا ایک سند ہے آقا

ہر زمانہ ہی ترا عہدِ ثنا خوانی ہے

آلِ اطہار کے خیمہ میں ہے بس نور ہی نور

رُخِ باطل پہ فقط وحشت و ویرانی ہے

لشکرِ ظلم کو عبرت کا نشاں کرڈالا

تیر ے کردار کی ہردور میں سلطانی ہے

سر کٹاتے ہیں بصد ناز وفا کے پیکر

کیسا اخلاص ہے کیا جذبہِ ایمانی ہے

گر حسینی ہو تو پھر دین سے دوری کیسی

روحِ شبیرؓکو اس بات پہ حیرانی ہے

عشق کب دائرہِ عقل میں آتا ہے شکیلؔ

حق نے باطل کی کہاں آج تلک مانی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]