آج معروف عالمِ دین اور نعت گو شاعر محمد الیاس قادری کا یومِ پیدائش ہے ۔

——
محمد الیاس قادری ایک پاکستانی میمن مسلمان عالم دین ہیں جنھوں نے تحریک دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ محمد الیاس قادری 26 رمضان 1369ھ بمطابق 1950ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت "ابوبلال”اور تخلص "عطار” ہے۔ محمد الیاس قادری کو کئی سلاسل طریقت میں بیعت کی اجازت حاصل ہے، لیکن صرف سلسلۂ قادریہ میں بیعت کرتے ہیں۔ آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جو اپنے نام کے ساتھ عطاری لکھتے ہیں۔ الیاس قادری کی قائم کردہ تنظیم دعوت اسلامی اس وقت تک 200 سے زائد ممالک میں اپنے قافلے روانہ کر چکی ہے۔ دعوت اسلامی سو سے زائد شعبوں میں تقسیم ہے، اس کے تحت دنیاوی تعلیم کے ادارے دارالمدینہ کی پاکستان و بیرون پاکستان میں قائم شاخوں کی تعداد 40 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اور دینی تعلیم کے ادارے مدرسۃ المدینہ کی 500 سے زیادہ۔ الیاس قادری نے اپنی تحریک کے لیے فیضان سنت کے نام سے ایک ضخیم کتاب مرتب کی ہے، جس کی نئی اشاعت دو جلدوں پر مشتمل ہے اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں، عورتوں اور نوجوان نسل کے لیے سو سے زیادہ چھوٹے بڑے رسائل لکھ چکے ہیں۔ جن کو دعوت اسلامی کا ادارہ مکتبۃ المدینہ 35 زبانوں میں شائع کر رہا ہے۔ الیاس قادری اپنے سبز عمامہ کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ جو دعوت اسلامی کی علامت بن چکا ہے۔ الیاس قادری کا دیا ہوا نعرہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے، ان شاء اللہ عزوجل مدنی مقصد کہلاتا ہے۔ الیاس قادری جدید ذرائع ابلاغ سے تبلیغ اسلام میں یقین رکھتے ہیں، اردو میں اولین اسلامی ویب سائٹ 1996ء میں جاری کی اور اپنے پریس لگائے جہاں سے قرآن مقدس سمیت تنظیمی و اسلامی کتابوں کو شائع کرنا شروع کیا، 2008ء میں اپنا ٹی وی مدنی چینل کے نام سے شروع کیا۔ حال ہی میں فیضان مدینہ کے نام سے اردو و ہندی زبان میں ماہ وار رسالہ شائع کرنا شروع کیا ہے۔ الیاس قادری احتجاج، ہڑتال اور سیاست سے دور رہتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : حامد حسن قادری کا یوم پیدائش
——
آبا و اجداد
——
محمد الیاس قادری کے آبا و اجداد بھارت تقسیم ہند سے پہلے جوناگڑھ کتیانہ میں مقیم تھے۔ آپ کا تعلق کتیانہ میمن برادری سے ہے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ کے والدین ہجرت کر کے پاکستان کے شہر حیدر آباد پھر کراچی منتقل ہو گئے۔ آپ کے والد کا نام حاجی عبد الرحمان تھا جو ایک نیک اور پارسا انسان تھے۔ انھوں نے سری لنکا کی حنفی میمن مسجد کی بہت سال تک خدمت کی وہاں اس وقت لوگوں نے قصیدۂ غوثیہ پڑتے ہوئے آپ کی کرامت بھی دیکھی۔ مولانا الیاس قادری کے والد 1370ھ میں ادائیگی حج کے دوران میں بیماری کی وجہ سے وفات پا گئے۔ اس وقت مولانا کی عمر صرف ایک سال تھی۔ آپ کے بڑے بھائی اور والدہ بالترتیب 1396ھ اور 1398ھ میں وفات پا گئے۔
——
ابتدائی تعلیم
——
محمد الیاس قادری نے علم دین کسی مدرسے میں باقاعدہ حاصل نہیں کیا بلکہ مفتی اعظم پاکستان علامہ مفتی وقارالدین کی خدمت میں 22 سال مسلسل جاتے رہے۔ مفتی مرحوم سے کتنا علم حاصل کیا اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا کہ علامہ الیاس قادری پوری دنیا میں ان کے واحد خلیفہ ہیں۔ 1981ء میں جب علما کرام اہلسنت کی دینی اصلاحی تنظیم بنانے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔ اس وقت بھی مفتی وقارالدین نے آپ کا نام اس کام کے لیے پیش کیا، کیونکہ الیاس قادری پہلے سے ہی خود ہی اس طرز پر کام کر رہے تھے۔
——
بیعت و ارادت
——
امام احمد رضا خان سے بے حد عقیدت کی بنا پر مولانا محمد الیاس قادری کو آپ کے سلسلے میں داخل ہونے کا شوق پیدا ہوا۔ خود لکھتے ہیں:
” (مرید ہونے کے لیے) ایک ہی ہستی مرکز توجہ بنی، گو مشائخِ اہل سنت کی کمی تھی نہ ہے مگر۔۔ پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا۔ اس مقدس ہستی کا دامن تھام کر ایک ہی واسطے سے اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن سے نسبت ہوجاتی تھی اور اس ’’ہستی‘‘ میں ایک کشش یہ بھی تھی کہ براہِ راست گنبد خضرا کا سایہ اُس پر پڑ رہا تھا۔ اس ’’مقدس ہستی‘‘ سے میری مراد حضرت شیخ الفضیلت آفتابِ رَضَویت ضیائے الْمِلَّت، مُقتدائے اَہلسنّت، مُرید و خلیفہ اعلیٰ حضرت، پیرِ طریقت، رَہبرِ شریعت، شَیخُ العرب و العَجَم، میزبانِ مہمانانِ مدینہ، قطبِ مدینہ، حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین اَحمد مدنی قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ذات گرامی (ہے) “
۔
——
یہ بھی پڑھیں : آنکھوں کو جسجتو ہے تو طیبہ نگر کی ہے
——
القابات
——
پاک و ہند کے علما و عوام میں آپ "امیر اہلسنت” کے نام سے مشہور ہیں۔ مریدین نام سے پہلے "شیخ طریقت” کا اضافہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات آپ کو "حضرت صاحب” کہہ کر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کے بانی ہونے کی وجہ سے آپ کو "بانیء دعوت اسلامی” بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی آل و اولاد اور متعدد اسلامی بھائی آپ سے عرض و معروض کے وقت "باپا” کے اپنائیت بھرے الفاظ سے بھی پکارتے ہیں۔ پاک و ہند کے مختلف علماء کرام و مفتیان کرام نے مختلف مواقع پر امیر اہلسنت کو جن القابات سے تحریرا” یاد کیا ہے، ان میں چند ملاحظہ ہوں: عالم نبیل، فاضل جلیل، عاشق رسول مقبول، یادگارِ اسلاف، نمونہء اسلاف، مبلغ اسلام، رہبر قوم، عاشق مدینہ، فدائے مدینہ، فدائے غوث الوری، فدائے سیدنا امام احمد رضا خان، صاحب تقوی، مسلک اعلیٰ حضرت کے عظیم ناشر و مبلغ پاسبان و ترجمان، ترجمان اہلسنت، مخدوم اہلسنت، محسن اہلسنت، حامی سنت، شیخ وقت، پیر طریقت، امیر ملت
——
دعوت اسلامی کا قیام
——
1401ھ میں اسلامی اصلاحی تحریک دعوت اسلامی قائم کی۔ یہ آپ کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مختصر سے عرصے میں دعوتِ اسلامی کا پیغام (تادم تحریر) دنیا کے 200 ممالک میں پہنچ چکا ہے اور لاکھوں عاشقانِ رسول نیکی کی دعوت کو عام کرنے میں مصروف ہیں۔ مختلف ممالک میں کُفار بھی مُبلِّغینِ دعوت ِ اسلامی کے ہاتھوں مُشرف بہ اسلام ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کی جہدِ مسلسل نے لاکھوں مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا جس کی بدولت وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سر پر سبز عمامے اور چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی بھی سجا لیتے ہیں۔
——
تبلیغی زندگی
——
قیام دعوت اسلامی کے قیام سے لے کر آج تک مولانا الیاس قادری اسلام کی تبلیغ میں مشغول ہیں، شروع شروع میں خود دور دراز شہروں کا تبلیغی سفر کرتے رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ نوجوان نسل آپ کی طرف متوجہ ہوئی اور تعداد بڑھنے لگی، 1990 کے لگ بھگ اپنی درسی کتاب فیضان سنت شائع کی، اس کے بعد کراچی میں فیضان مدینہ کے نام سے دعوت اسلامی کا مرکز قائم کیا جس میں مسجد، مدرسہ اور رہاہشی کمرے بنائے گئے ہیں۔ تعداد بڑھنے کی وجہ سے الیاس قادری صاحب خود تنظیم کی تربیت کی طرف توجہ دینے لگے، اس دوران میں ان پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا، جس کی وجہ سے اب خود تبلیغ کے لیے پاکستان کے اندر سفر نہیں کرتے۔
——
کتب و رسائل
——
اب تک 120 رسائل، چند کتب اس کے علاوہ 2 ضخیم جلدوں میں فیضان سنت جو تقریباً 3300 صفحات پر شائع ہو چکی ہے، جب کے آپ کی کتب کو دنیا کی 35 زبانوں میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : پیغامِ عمل
——
فیضان سنت جلد اول – 1586 صفحات
بیانات عطّاریہ جلد دوم – 472 صفحات
نیکی کی دعوت – 616 صفحات
رفیق الحرمین حج و عمرہ کا طریقہ
وسائل بخشش (نعتیہ دیوان) – 737 صفحات
کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب – 692 صفحات
پردے کے بارے میں سوال جواب– 397 صفحات
غیبت کی تباہ کاریاں – 504 صفحات
مدنی پنج سورہ اوراد و وظائف – 419 صفحات
اسلامی بہنوں کی نماز حنفی – 308 صفحات
نماز کے احکام – 524 صفحات
فیضانِ رمضان – 686 صفحات
——
اولاد
——
آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑا بیٹا عبید رضا ہے جس کو عالم دین بنایا ہے، چھوٹا بیٹا جس کا نام محمد بلال ہے اس کی آواز میں بہت سوز ہے، وہ آج کل حمد، نعت اور مناقب صحابہ و اولیاء کرام میں مشغول ہے اور بہت زیادہ سنا جا رہا ہے۔ جبکہ بیٹی کا نام آمنہ ہے۔ دونوں بیٹے شادی شدہ ہیں جن کی شادی کی انتہائی سادہ تقریب براہ راست مدنی چینل پر بھی نشر کی گی۔
——
منتخب کلام
——
مجھے در پہ پھر بُلانا مدنی مدینے والے
مئے عشق بھی پلانا مدنی مدینے والے
مری آنکھ میں سمانا مدنی مدینے والے
بنے دل ترا ٹھکانا مدنی مدینے والے
تری جب کہ دید ہوگی جبھی میری عید ہوگی
مرے خواب میں تم آنا مدنی مدینے والے
مجھے سب ستا رہے ہیں مرا دل دُکھا رہے ہیں
تمھیں حوصلہ بڑھانا مدنی مدینے والے
مرے سب عزیز چھوٹے سبھی یار بھی تو روٹھے
کہیں تم نہ رُوٹھ جانا مدنی مدینے والے
میں اگرچہ ہوں کمینہ ترا ہوں شہِ مدینہ
مجھے سینے سے لگانا مدنی مدینے والے
ترا تجھ سے ہوں سوالی شہا پھیرنا نہ خالی
مجھے اپنا تم بنانا مدنی مدینے والے
یہ کرم بڑا کرم ہے ترے ہاتھ میں بھرم ہے
سرِ حشر بخشوانا مدنی مدینے والے
تری سادگی پہ لاکھوں تری عاجزی پہ لاکھوں
ہوں سلامِ عاجزانہ مدنی مدینے والے
ملے نزع میں بھی راحت، رہوں قبر میں سلامت
تو عذاب سے بچانا مدنی مدینے والے
مجھے آفتوں نے گھیرا، ہے مصیبتوں کا ڈیرہ
یا نبی مدد کو آنا مدنی مدینے والے
ترا غم ہی چاہے عطارؔ، اسی میں رہے گرفتار
غم مال سے بچانا مدنی مدینے والے
——
بُلا لو پھر مجھے اے شاہِ بحر و بَر مدینے میں
میں پھر روتا ہوا آؤں تِرے دَر پر مدینے میں
میں پہنچوں کوئے جاناں میں گریباں چاک سینہ چاک
گِرا دے کاش مجھ کو شوق تڑپا کر مدینے میں
مدینے جانے والو جاؤ جاؤ فی اَمانِ اللہ
کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بِستر مدینے میں
نہ ہو مایوس دیوانو پکارے جاؤ تم ان کو
بُلائیں گے تمہیں بھی ایک دن سروَر مدینے میں
بُلا لو ہم غریبوں کو بُلا لو یا رسول اللہ
پئے شبیر و شبر فاطمہ حیدر مدینے میں
خدایا واسطہ دیتا ہوں میرے غوثِ اعظم کا
دکھا دے سبز گنبد کا حسیں منظر مدینے میں
وسیلہ تجھ کو بوبکر، عمر، عثمان و حیدر کا
الٰہی تُو عطا کردے ہمیں بھی گھر مدینے میں
مدینہ میرا سینہ ہو مِرا سینہ مدینہ ہو
مدینہ دل کے اندر ہو دلِ مُضْطَر مدینے میں
نہ دولت دے نہ ثروت دے مجھے بس یہ سعادت دے
تِرے قدموں میں مر جاؤں میں رو رو کر مدینے میں
عطا کر دو عطا کر دو بقیعِ پاک میں مدفن
مِری بن جائے تُربت یا شہِ کوثر مدینے میں
مدینہ اس لیے عطّارؔ جان و دل سے ہے پیارا
کہ رہتے ہیں مِرے آقا مِرے سرور مدینے میں
——
اے کاش! تصور میں مدینے کی گلی ہو
اور یادِ محمد بھی مرے دل میں بسی ہو
دو سوزِ بلال آقا ملے دردِ رضا سا
سرکار عطا عشق اویس قرنی ہو
اے کاش! میں بن جاؤں مدینے کا مسافر
پھر روتی ہوئی طیبہ کو بارات چلی ہو
پھر رحمت باری سے چلوں سوئے مدینہ
اے کاش! مقدّر سے میسّر وہ گھڑی ہو
جب آؤں مدینے میں تو ہو چاک گریباں
آنکھوں سے برستی ہوئی اشکوں کی جھڑی ہو
اے کاش! مدینے میں مجھے موت یوں آئے
چوکھٹ پہ تری سر ہو، مری روح چلی ہو
اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تری دھوم مچی ہو
اللہ کی رحمت سے تو جنت ہی ملے گی
اے کاش! محلے میں جگہ اُن کے ملی ہو
عطار ہمارا ہے سرِ حشر اُسے اے کاش
دستِ شہِ بطحا سے یہی چِٹھی ملی ہو