مَیں ہُوں کیا ، کیا مرا گفتہ ، مرے والی وارث
لایا ہُوں حرفِ شکستہ ، مرے والی وارث
طُرفہ انداز سے یہ خُلد مکانی ہو رواں
سامنے ہوں دمِ رفتہ ، مرے والی وارث
دید کی ساعتِ بیدار سے تاباں کر دے
کہ مرا بخت ہے خفتہ ، مرے والی وارث
چُپ کی دہلیز پہ ہے سجدہ کناں حرفِ طلب
نعت ہے بر لبِ بستہ ، مرے والی وارث
میرا ہر کام ہے جیسے کہ کوئی نقصِ عمل
میری ہر بات ہے خستہ ، مرے والی وارث
ایک عرضی ہے مدینے کے سفر کی آقا
ایک خواہش ہے نہفتہ ، مرے والی وارث
کیا کریں یہ مری چشمانِ طلَب زاد یہاں
کیا کہے یہ دلِ کُشتہ ، مرے والی وارث
جس کی تاثیر سے قائم ہے چمن زارِ سخن
ہے ترا لہجۂ شستہ ، مرے والی وارث