مِری آنکھ برکھا کا بے مہر پانی
تِری لہر بجلی ، مِری لہر پانی
کہ چھلکے ہیں دریا کے جب بھی کنارے
بہا لے گیا بستیاں ، شہر پانی
اُتر آئے آنکھوں میں برسات موسم
نظر آیا پھر دہر کا دہر پانی
ق
اُبھر آتا ہے ڈوبتا دوست چہرہ
میں جب دیکھتا ہوں کبھی نہر ، پانی
کسی کے لئے ہوگا تریاق اشعرؔ
مِرے واسطے بن گیا زہر پانی