مکان لاکھ لبھاتے ، مگر بلاتا تھا

وہ راستہ، کہ مکانوں کے بعد آتا تھا

ذرا سی دیر کو لگتا کہ رائیگاں نہ گئے

وہ جب کبھی مرے اشعار گنگناتا تھا

تمہارے لمس کی طاری تھی سرخوشی اس پر

یہ دل بھلا مرے پہلو میں کب سماتا تھا

وہ انہماک کے عالم دم بخود اور میں

کہ جیسے شعر نہیں واقعہ سناتا تھا

ترے حضور ہوئے رقص کے علاوہ بھی

جنون کرب و اذیت کو آزماتا تھا

گئے دنوں میں کئی بار آنکھ کھلنے پر

میں اپنے آپ کو ان بازوؤں میں پاتا تھا

خبر بھی ہےَ کہ درِ آرزو سے لوٹ گیا

جو کم نصیب کسی حال میں نہ جاتا تھا

خزاں کی سرد پواؤں میں زرد پتوں سے

اجل رسید شجر تالیاں بجاتا تھا

تخیلات کی لہریں جو کھیلتی ناصر

سخن کی جھیل میں اک چاند جھلملاتا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]