اردوئے معلیٰ

Search

مکان لاکھ لبھاتے ، مگر بلاتا تھا

وہ راستہ، کہ مکانوں کے بعد آتا تھا

 

ذرا سی دیر کو لگتا کہ رائیگاں نہ گئے

وہ جب کبھی مرے اشعار گنگناتا تھا

 

تمہارے لمس کی طاری تھی سرخوشی اس پر

یہ دل بھلا مرے پہلو میں کب سماتا تھا

 

وہ انہماک کے عالم دم بخود اور میں

کہ جیسے شعر نہیں واقعہ سناتا تھا

 

ترے حضور ہوئے رقص کے علاوہ بھی

جنون کرب و اذیت کو آزماتا تھا

 

گئے دنوں میں کئی بار آنکھ کھلنے پر

میں اپنے آپ کو ان بازوؤں میں پاتا تھا

 

خبر بھی ہےَ کہ درِ آرزو سے لوٹ گیا

جو کم نصیب کسی حال میں نہ جاتا تھا

 

خزاں کی سرد پواؤں میں زرد پتوں سے

اجل رسید شجر تالیاں بجاتا تھا

 

تخیلات کی لہریں جو کھیلتی ناصر

سخن کی جھیل میں اک چاند جھلملاتا تھا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ