میرا جنوں خیال سے آگے نہ جا سکا

میں ہجر تجھ وصال سے آگے نہ جا سکا

وہ خوش خرام لمحہءِ آئیندہ میں گیا

اور میں رہ ملال سے آگے نہ جا سکا

دل تک پہنچ کے رہ گیا سب دشتِ آرزو

اس شہرِ پائمال سے آگے نہ جا سکا

اتنے جواب آئے کہ سمجھا ہی کچھ نہیں

میں تو اس اک سوال سے آگے نہ جا سکا

سورج مرے لیے کہاں آیا ہے لوٹ کر

اپنی حدِ زوال سے آگے نہ جا سکا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]