میرا جنوں خیال سے آگے نہ جا سکا
میں ہجر تجھ وصال سے آگے نہ جا سکا
وہ خوش خرام لمحہءِ آئیندہ میں گیا
اور میں رہ ملال سے آگے نہ جا سکا
دل تک پہنچ کے رہ گیا سب دشتِ آرزو
اس شہرِ پائمال سے آگے نہ جا سکا
اتنے جواب آئے کہ سمجھا ہی کچھ نہیں
میں تو اس اک سوال سے آگے نہ جا سکا
سورج مرے لیے کہاں آیا ہے لوٹ کر
اپنی حدِ زوال سے آگے نہ جا سکا