میرے دِل میں حضور رہتے ہیں
کون کہتا ہے دُور رہتے ہیں
اُن کے قدموں میں اُن کے دیوانے
اہلِ فکر و شعور رہتے ہیں
جن کو نظرِ کرم کی بھیک ملے
وہ مجسم سرُور رہتے ہیں
جو درُود و سلام پڑھتے ہیں
اُن کے دِل نور نور رہتے ہیں
اُن کی گلیوں سی وہ کہاں جنت
جس میں حور و قصور رہتے ہیں
پیار سے اہلِ دِل بلائیں تو
آپ آ کر ضرور رہتے ہیں
نسبتِ آنحضور سے ہی ظفرؔ
زندہ اہلِ قبور رہتے ہیں