میں سو جاتا ہوں کر کے گفتگو صدیقِ اکبر کی

نظر میں جاگتی ہے جستجو صدیقِ اکبر کی

زباں پر انگبیں کا ذائقہ جلوے بکھیرے گا

زباں پر بات جب لائے گا تو صدیقِ اکبر کی

فرشتے بھی یقیناً سر جھکا کر سن رہے ہوں گے

میں باتیں کر رہا تھا باوضو صدیقِ اکبر کی

جہاں جلوہ فگن کون و مکاں کے تاج والے ہیں

برابر میں لحد ہے مشکبو صدیقِ اکبر کی

وصالِ ثانیٔ اثنین کا ماہِ مبارک ہے

مہک پھیلی ہوئی ہے سو بسو صدیقِ اکبر کی

صحابہ سرورِ کونین کے سارے ستارے ہیں

سوا ہے تاب لیکن ماہ رو صدیقِ اکبر کی

ہمارے دل میں ہے اشفاقؔ جس فردوس کی خواہش

اسی فردوس کو ہے آرزو صدیقِ اکبر کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]