میں کیسے جھیل سکوں گا بنانے والے کا دکھ

جھری جھری پہ لکھا ہے لگانے والے کا دکھ

غضب کی آنکھ اداکار تھی ، مگر ہائے

تمھاری بات ہنسی میں اڑانے والے کا دکھ

غزل میں درد کی پہلے بھی کچھ کمی نہیں تھی

اور اُس پہ ہو گیا شامل سنانے والے کا دکھ

تجھے تو دکھ ہے فقط اپنی لامکانی کا

قیام کر تو کھلے گا ٹھکانے والے کا دکھ

بدن کے چیتھڑے اڑتے کہیں ہواؤں میں

سنانے والے سے کم تھا چھپانے والے کا دکھ

زمانے عشق کی تفہیم تو ذرا کرنا

بے روزگار بتائے، کمانے والے کا دکھ

گرانے والے کے احساس میں نہیں قیصر

یہ آسماں کو زمیں پر اٹھانے والے کا دکھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]