اردوئے معلیٰ

Search

نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر​

ترا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر​

 

ہے تری مرتبہ دانی میں پوشیدہ خدادانی​

تو مظہر ہے خدا کا، نور وحدت ختم ہے تجھ پر​

 

ترے ہی دم سے بزم ِ انبیاء کی رونق و زینت​

تو صدرِ انجمن، شانِ صدارت ختم ہے تجھ پر

 

تری خاطر ہوئے تخلیق یہ ارض و سماء سارے

یہی وجہء ضرورت تھی ضرورت ختم ہے تجھ پر

 

خدا خود نعت لکھتا ہے تری قران کی صورت

عجب ہے شانِ محبوبی، وجاہت ختم ہے تجھ پر

 

مزمل بھی، مدثر بھی ہے تو، یاسین و طٰہٰ بھی

انوکھے نام ہیں تیرے، یہ ندرت ختم ہے تجھ پر

 

شریعت کے محل کا آخری پتھر ہے تو پیارے

ادھورے کو کیا پورا یہ سنت ختم ہے تجھ پر

 

ترے ہی ہاتھ سے تکمیلِ دیں اللہ نے فرمائی

ہوا اتمام نعمت کا یہ نعمت ختم ہے تجھ پر

 

نہیں ہے باپ گرچہ تو کسی بھی مرد کا لیکن

تو مُہرِ انبیاء شانِ رسالت ختم ہے تجھ پر

 

نہیں حاجت کسی دستور کی اب بعد قرآں کے

یہی دستورِ کامل، کاملیت ختم ہے تجھ پر

 

کیا وہ کام تنہا جو نبی مل کر نہ کر پائیں

فہم انمول تیرا، قابلیت ختم ہے تجھ پر

 

تو آکر بعد میں بھی سب پہ بازی لے گیا پیارے

یہ ہمت ختم ہے تجھ پر، یہ سبقت ختم ہے تجھ پر

 

خدا میں جذب ہو کر تو ابد تک ہو گیا زندہ

فنا ہو کر بقا پائی، سعادت ختم ہے تجھ پر

 

تری ہی ذات میں آکر ہوئی اکمل ہر اک خوبی

مروت ہو، متانت ہو کہ الفت ختم ہے تجھ پر

 

خدا کے نام گر سو ہیں تو تیرے ایک کم سو ہیں

صفاتِ ذاتِ باری سے شباہت ختم ہے تجھ پر

 

کہا جبرئیل نے “اقراء” کہا میں پڑھ نہیں سکتا

کمالِ عاجزی کی یہ علامت ختم ہے تجھ پر

 

شبِ معراج تو نے بام ِ عرفاں کو چھوا جا کر

یہی حدِ فضیلت تھی، فضیلت ختم ہے تجھ پر

 

افلاک کو اک جست میں طے کر گیا پیارے

یہ شوکت یہ، سعادت، یہ امامت ختم ہے تجھ پر

 

جہاں جبرئیل کے جلتے تھے پر تو اس جگہ پہنچا​

تو منزل ہے رہءِ حق کی مسافت ختم ہے تجھ پر​

 

خدا سے عشق ایسا تھا ملائک ہو گئے حیراں​

لگے سرگوشیاں کرنے محبت ختم ہے تجھ پر​

 

ہزاروں سال میں جو راہِ الفت طے نہ ہوتی تھی​

دنوں میں طے کرادی وہ، قیادت ختم ہے تجھ پر​

 

قیامت تک تیرے ہی فیض کا جاری ہے اب دریا​

تری بخشش نرالی ہے، سخاوت ختم ہے تجھ پر

 

ہے دستور العمل قرآن، سچا رہنما تو ہے

یہی رازِ حقیقت ہے، حقیقت ختم ہے تجھ پر

 

ترے آوازہِ حق نے بپا محشرکیا جگ میں

تری بعثت قیامت تھی، قیامت ختم ہے تجھ پر

 

کمالاتِ رسالت، حق نے تجھ پر وار کر سارے

کہا پھر پیار سے پیارے، رسالت ختم ہے تجھ پر

 

صادق بھی امیں بھی تھا یہ دشمن تک پکار اُٹھے

صداقت ختم ہے تجھ پر، امانت ختم ہے تجھ پر

 

غفلت کے، جہالت کے حجابوں سے چھڑاتا ہے

یہ علم و معرفت، فہم و فراست ختم ہے تجھ پر

 

عجب تھا حوصلہ ہر جاں کے دشمن کو اماں دے دی

تو اعلٰی ظرف تھا ترکِ شکایت ختم ہے تجھ پر

 

زمین و آسماں پر شور اک صل علیٰ کا ہے

تو طاہر تھا، مطہر تھا، طہارت ختم ہے تجھ پر

 

ترے در کی گدائی میں ہے پوشیدہ شہنشاہی

تو شاہِ دو جہاں ہے بادشاہت ختم ہے تجھ پر

 

محبت وہ خدا سے کی کہ دشمن تک پکار اُٹھے

تو اپنے رب پہ عاشق ہے یہ جدت ختم ہے تجھ پر

 

تری ذات و صفات، افعال، سب لاریب، پاکیزہ

تقدس خود پکار اُٹھا کہ عفت ختم ہے تجھ پر

 

جو اربابِ تدبر ہیں وہ بے کھٹکے یہ کہتے ہیں

ترا ہی ذکر اب جاری، حکایت ختم ہے تجھ پر

 

نہیں ہم جانتے، تو عشق کی کس راہ سے گزرا

بس اتنا جانتے ہیں دردِ فرقت ختم ہے تجھ پر

 

سلگتا تھا ترا سینہ اُبلتی دیگ کی مانند

عجب تھی عشق کی حدت، یہ حدت ختم ہے تجھ پر

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ