نبی کی حب سے علاقہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہمارے سر میں یہ سودا نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہزار باغ بسے ہوں نگاہ میں پھر بھی
نظر میں آپ کا روضہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ مال و دولتِ دنیا یہ عزت و شہرت
درِ حضور پہ تکیہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
سنا ہے میں نے یہ اہلِ نظر کو کہتے ہوئے
نصیب آپ کا جلوہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ بات سچ ہے کہ دل کی ہر ایک دھڑکن پر
نبی کی یاد کا پہرہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
بہت ضروری ہے مر جائیں اُن کی حرمت پر
اگر یہ کام بھی ہوتا نہیں تو کچھ بھی نہیں
چراغِ مدحتِ آقا کی پاک کرنوں سے
نگاہ و دل کو اجالا نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہوں چاہے جتنے گھنے پیڑ تیرے آنگن میں
گر اُن کی آل کا سایا نہیں تو کچھ بھی نہیں
جہان بھر کی ہوں اسناد پھر بھی محشر میں
شہہِ ُرسل کا حوالہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
اگر یہ چاند ستارے بھی ہاتھ آ جائیں
فدا جو اُن کا سہارا نہیں تو کچھ بھی نہیں