نشے میں ڈُوب گیا مَیں ، فضا ھی ایسی تھی

دیارِ حُسن کی آب و ھوا ھی ایسی تھی

نہال کر دیا پلکوں کی اوٹ سے مجھ کو

نگاہِ یار ! تری کم نگاھی ایسی تھی

ھماری پُوری گواھی بھی معتبر نہ رھی

کسی حسِین کی آدھی گواھی ایسی تھی

بدن کی شاخ پہ ایک آدھ پھُول بھی نہ رھا

ھوائے موسمِ ھجراں بلا ھی ایسی تھی

اُٹھی نہیں مری آنکھیں مگر جھکی بھی نہیں

برھنگی کے بدن پر قبا ھی ایسی تھی

مرے ھی اِذن سے چلتی تھیں دھڑکنیں اُس کی

کسی کے دِل پہ مری بادشاھی ایسی تھی

مرا گناہ نہیں ڈگمگانا ایماں کا

خُدا گواہ ! وہ کافر ادا ھی ایسی تھی

محل میں جھُوم اُٹھیں شاھزادیاں ساری

گدا ھی ایسا تھا اور اِلتجا ھی ایسی تھی

بُرا سلوک سہا اور ترا بھلا چاھا

ھمارے دِل میں تری خیر خواھی ایسی تھی

خُدا کسی کو نہیں ایسا ناخُدا دیتا

ھماری ناؤ میں خلقِ خُدا ھی ایسی تھی

فُرات و نیل کے پانی سے بھی نہ دُھل پائی

منافقوں کے دِلوں پر سیاھی ایسی تھی

ھر اِک مکان کا دروازہ کھُل گیا فارسؔ

گلی میں گونجنے والی صدا ھی ایسی تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]