نطق و بیان و ہمّتِ گفتار دم بخود

وہ جلوہ ہائے نور کہ اظہار دم بخود

نقطہ بھی حسنِ اسمِ محمّد پہ بار ہے

تشبیہ ،استعارہ و اشعار دم بخود

تحریر ہو تو کیسے جلالت مآب حسن

خامہ دو نیم سرنگوں ، افکار دم بخود

وہ تابشِ ضحٰی ہو کہ والّیل کا جمال

ان کے حضور دن کہ شب تار، دم بخود

قرآں سرا ہوئے جو وہ قدسی مقال لب

دانشوارنِ عصر تھے لاچار دم بخود

عالم ہے ایک دیدۂ حیرت بصد نیاز

جلوہ کریں حضور تو ابصار دم بخود

اِس دشت جاں میں چمکیں اگر ان کے پائے ناز

ہوں چشم و گوش و لب پئے دیدار دم بخود

چوموں کبھی جو خواب میں بھی ان کا نقشِ پا

مخمور جاں ہو دل بھی ہو سرشار دم بخود

امڈی جو ان کی یاد تو جل تھل تھا روح تک

آنسو سرشکِ خوں ہوئے رُخسار دم بخود

نوری فضائے شہرِ مدینہ نظر میں ہے

اس حاضری پہ طالعِ بیدار دم بخود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]