اردوئے معلیٰ

آج ممتاز اردو صوفی شاعر، فلسفی اور اسکالر بابا ذہین شاہ تاجی کی برسی ہے ۔

ذہین شاہ تاجی(پیدائش: 1902ء – وفات: 23 جولائی 1978ء)
——
معروف اردو صوفی شاعر، فلسفی، اسکالر ذہین شاہ تاجی کا تعلق صوفیا کے سلسلہ چشتیہ سے ہے۔ ان کا سلسلہ نسب دوسرے خلیفہ عمر فاروق سے ملتا تھا۔
ذہین شاہ تاجی کا اصل نام محمد طاسین فاروقی اور "ذھین” تخلص تھا۔ آپ کے والد پیرزادہ خواجہ دیدار بخش فاروقی ہیں۔
1902ء میں ہندوستان کے صوبے راجستھان کے قصبہ کھنڈیلہ ضلع توڑاوائی جو تاریخی گلابی شہر جے پور میں ہے پیدا ہوئے۔
ذیین شاہ تاجی مذہبی عالم، دانشور، غزل کے شاعرہونے کے علاوہ انہیں اردو، فارسی ،ہندی، عربی اور انگریزی پر بھی دسترس تھی۔ ان کے مرشد یوسف شاہ تاجی تھے۔ ذہین شاہ تاجی تاج الدین بابا ناگوری کے معتقد بھی تھے۔ عطر اور سرمہ لگاتے تھے۔ عام آدمیوں کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے بہت مہمان نواز تھے۔ جب بھی لنگر او دعوت ہوتی تو بچوں کو پہلے کھانا کھلانے کا کہتے تھے۔ ان کے شاعرانہ الہام میں مخصوص شعری جمالیات کی خوشبو پھیلی ہوتی تھی۔
انہوں نے ابن عربی کی کتاب ۔۔”فصوص الحکم”۔۔ اور منصور بن حلاج کی مشہور تصنیف؛؛”الطوسین”۔۔ کا اردو ترجمہ کیا۔ جس میں خدا اور ابلیس (شیطان) کا مکالمہ بھی شامل ہے۔ ان کی سب سے اہم کتاب”تاج الاولیاء” بابا تاج الدین ناگوری کی سوانح عمری جو اردو اور فارسی میں لکھی گئی تھی۔ ذہین شاہ تاجی نے سولہ (16) سے زائد کتابیں لکھیں۔ عموما وہاں پر مذہبی اور علمی مباحث ہوا کرتی تھیں۔ تاجی بابا کی باتوں میں بلا کا کمال، جمال اور جلال ہوتا تھا۔ ایک دن "سجدے” پر بحث شروع ہو گئی۔ انہوں نے سجدے کی کوئی دو/2 درجن اقسام گنوائی اور اس کی عام فہم تشریح بھی کی۔ ان کے گفتگو میں بہت علمیت ہوتی تھی اور عشا کی نماز کے بعد مشاعرہ بھی ہوتا تھا۔ جس میں کراچی کے شعرا حصہ لیتے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شیر شاہ سید کا یوم پیدائش
——
ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ان کے علمی اور ادبی حلقے میں اے بی حلیم المعرف ابّا حلیم (سابق شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی) ماہر القادری (مدیر فاران)پروفیسر غلام مصطفے ، پروفیسر کرار حسین ( سابق وائس چانسلر، بلوچستان یونیورسٹی )،حسرت کشگجوی ، مولانا کوثر نیازی ، رشید ترابی ، جوش ملیح آبادی ، ابو الخیر کشفی ،اطہر نفیس ، الیاس عشقی ، رئیس امرہوی ، ڈاکٹر محمود احمد ( سابق صدر شعبہ فلسفہ، جامعہ کراچی)، ڈاکٹر علی اشرف ( سابق صدر شعبہ انگریزی، جامعہ کراچی ، 1971 میں بنگلہ دیش چلے گئے تھے) ڈاکٹر منظور احمد (وائس چانسلر، ہمدرد یونیورسٹی کراچی)پروفیسر مجتبیٰ حسین (صدر شعبہُ اردو بلوچستان یونیورسٹی )، سید محمد تقی اور سلیم احمد شامل تھے ( فہرست طویل ہے)۔ 60 کی دہائی میں کراچی میں شاعر اطہر نفیس کے سوتیلے بھائی کنور اصغر علی خان کے گھرواقع نشتر روڈ (سابقہ لارنس روڈ) پر ذہین شاہ تاجی آیا کرتے تھے۔ ذہین شاہ تاجی پان بہت شوق سے کھاتے تھے۔
——
تصنیفات
——
لمعات جمال
اجمال جمال
آیات جمال
23 جولائی 1978ء میں کراچی میں انتقال ہوا۔ کراچی کے میوہ شاہ کے قبرستان میں ان کا آستانہ تھا جہاں ہر جمعرات کو سماع اور لنگرکا اہتمام بھی ہوتا تھا۔
——
اقتباس از دیباچہ بقلم جوش ملیح آبادی
——
کوئی تُک بھی ہے جناب والا، مجھ رندِ خراباتی اور حضرت ذہین شاہ تاجی کے مابین ارتباط و اختلاط۔۔۔۔ وہ غیب ہیں، میں شہود، وہ ذِکر ہیں، میں فکر، وہ معتقد ’’الہام‘‘ ہیں میں منکر پیغام، وہ درود، میں عود، وہ حرم، میں بیت الصنم، وہ محونالۂ صباحی، میں غرقِ دجلۂ صراحی، وہ گریۂ شبانہ، میں خندہ ٔ سحر گاہانہ، وہ نقیب لالہ، میں خطیبِ منبر گناہ۔۔۔ وہ یقین کی گلی میں بڑے اطمینان کے ساتھ دھونی رمائے بیٹھے ہیں، میں تشکُّک کی وادیوں میں یہ کہتا ہوا، خاک چھان رہا ہوں کہ:
——
صبا، بلطف بگو آں غزالِ رعنا را
کہ سر بکوہ و بیابان تو دادۂ مارا
“اے صبا اس نازنین ہرن سے نرمی سے کہہ دے
کہ ہمارا سر کوہ و بیاباں کے حوالے تو نے ہی تو کیا ہے”
——
اُن کی آنکھوں میں رازیابی کا سرور ہے، میرے دل میں تجسُّس کا ناسور ہے، ان کو اپنے علم کا احساس ہے، میں اپنے جہل کا معترف اور رو رہا ہوں کہ : ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم ِ عوام ست۔ وہ گردن جھکاتے ہیں اور ’’جلوۂ یار‘‘ کو سامنے پاتے ہیں، میں ہر طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہوں کہ:
——
ساقیٔ مطرب و مے، جملہ مہیاست ولے
کیف بے یار میسّر نہ شود، یار کُجاست؟
(شراب، گوّیا،پھول سب مہیا ہیں
یار کے بغیر لطف نہیں، کہاں ہے یار)
وہ جب صبح کے گلابی نور میں آنکھیں اُٹھاتے ہیں، تو ’’شاہد غیب‘‘ کے جلوؤں کے پھولوں سے ان کی نظر کا دامن بھر جاتا ہے اور : ’’گُل چینِ بہارِ تو، زدامان گلہ دارد‘‘ کے ترانے چھڑ جاتے ہیں، اور میں نامُراد جب منھ اندھیرے جاگتا ہوں تو یہ شعر بے ساختہ زبان پر جاری ہوجاتا ہے:
——
شبِ تار است و رہِ وادیٔ ایمن درپیش
آتشِ طور کجا، وعدہ دیدار کجاست؟
(رات اندھیری ہے اور راہِ وادئ ایمن درپیش ہے
کہاں ہے آتشِ طور، ہے کہاں وعدہء دیدار)
اور جب، گُریز پا ستاروں پر نظر جماتا ہوں تو گریبان پھاڑ کر چلّاتا ہوں:
اے رات گئے کے غم گسارو، بولو
اے عالمِ بالا کے اشارو، بولو
اِس پردۂ رنگ و بو میں پوشیدہ ہے کون؟
بولو، اے ڈوبتے ستارو، بولو
——
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ میں اور ذہین شاہ میں کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے؟ اسی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ شاہ صاحب کا یہ ارشاد ہے کہ ’’نَفَسِ کُلّی‘‘ اور حقائقِ کائنات کا ادراک، وجدان، اور فقط وجدان سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وجدان ایک ایسی طاقت ہے، جو فقط فنونِ لطیفہ کی تخلیق و تزئین کے کام آتی ہے، تفتیش و تحقیق اس کا وظیفہ ہی نہیں۔ وہ ایک مقیّش کا پھندنا ہے۔ جس سے میدانِ جستجو میں پھاوڑے کا کام لیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس بنا پر میرا ایمان ہے کہ صرف تفکُّر و تدبّر ہے، جس کی چٹکی، لیلائے کائنات کے مکھڑے سے نقاب اٹھاتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شہِ دوسرا کا ہم سر نہ ہوا نہ ہے نہ ہوگا
——
شاہ صاحب کا تصوّف، ذرّوں میں بھی موتی دیکھ لیتا ہے اور میری فکر سچّے موتیوں پر بھی نگاہ جماتی ہے تو آنسوؤں میں تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔
——
ہم نے پھولوں کو چھوا، پل بھر میں، کانٹے بن گئے
اُس نے، کانٹوں پر قدم رکّھا، گلستاں کردیا
——
وہ ’’آہ‘‘ کے شیدائی ہیں، میں ’’نگاہ‘‘ کا۔۔۔۔اُن کا نعرہ ہے:
——
دُعائے صبح و آہِ شب، کلیدِ گَنجِ مقصود ست
بایں راہ و رَوش می رَو کہ بادل دار پیوندی
(گوہرِ مقصود کی کنجی دعائے صبح و آہِ شب میں ہے
انہی راہوں، روشو ں پر چلو کہ دلدار کا وصال نصیب ہو)
——
اور میں پُکار پُکار کر کہتا ہوں:
حاصل کار گہِ کون و مکاں، ایں ہمہ نیست
بادَہ پیش آر کہ اسبابِ جہاں ایں ہمہ نیست
(کون و مکاں کی اس کارگاہ کا حاصل یہی سب نہیں
شراب لا کہ اسبابِ جہاں یہی سب نہیں)
——
اُن کے اشراقی گنبد میں :’’السلام، اے عشق خوش سودائے ما‘‘(السلام اے عشق، ہمارے جنونِ خوش ”)، کے ترانے چھڑے ہوئے ہیں۔ اور میری کار گاہِ تامُّل سے،’’السّلام، اے عقل خوش ملجائے ما‘‘ (السلام اے عقل ہماری بہترین پناہ گاہ!) کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ، دل میں تجلّیات کا مشاہدہ کرکے فرماتے ہیں ’’ستارہ بدرخشید و ماہِ مجلس شد (ایک ستارہ چمکا اور ماہِ مجلس ہوگیا‘‘ اور میں خم خانہ ادراک میں گنگنا رہا ہوں کہ :
——
’’ما، در پیالہ، عکسِ رُخِ یار دیدہ ایم ‘‘ (ساغر میں ہم عکسِ رخِ یار کا دیدار کرتے ہیں)
——
وہ تصوف کی سہانی چاندنی میں مقاماتِ معنوی کا درس دے رہے ہیں، اور میں تجسس کی کڑی دھوپ میں کھڑا آواز دے رہا ہوں:
——
مصلحت نیست کہ از پردہ بُرون افتد راز
ورنہ در مجلس رندان، خبرے نیست کہ نیست
(راز کی پردہ کشائی خلافِ مصلحت ہے
ورنہ مجلسِ رنداں کسی خبر سے بے خبر نہیں)
——
ان دست و گریبان و متضاد حالات میں، ہمارے درمیان، آویزش کے بجائے ارتباط و اختلاط کا پیدا ہونا، اور اس کا، تھوڑے ہی دن کے بعد شدید محبت میں تبدیل ہوجانا ایک عجب معجزہ معلوم ہوتا ہے۔
——
جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم
میں، معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
——
ارباب نظر ہماری محبت کو دیکھتے ہیں تو بھَوچکّا سے ہو کر رہ جاتے ہیں، اور، گھبرا گھبرا کر، ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، صاحبو، خدارا بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے، کوئی اللہ کا بندہ کچھ روشنی ڈالے اس خَرَقِ عادت پر کہ خانقاہ و خرابات کے ڈانڈے کیسے مل گئے۔ قُلقُلِ مینا اور نعرۂ ’’یاہو‘‘ میں کن بنیادوں پر سمجھوتا ہوگیا، اور کاشیٔ بادہ و کعبۂ سجّادہ نے، ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں کیوں کر ڈال دیں۔
——
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست !
(عقل حیرت سے جل گئی کہ یہ کیا بوالعجبی ہے!)
——
یہ بھی پڑھیں : نہیں ہے دوسرا کوئی ہمارا یا علی مولا
——
اب تو عالم یہ ہے کہ ہم دونوں، یعنی شاہ صاحب اور شاعر صاحب ایک دوسرے کی محبت میں بھی پڑ گئے ہیں، ایک طرف تو میرے برادران فکر، تیوری چڑھا چڑھا کر، مجھ کو طعن و تشنیع کا ہدف بنائے ہوئے ہیں، اور ان کی ناکیں لانبی ہو ہو کر مجھ سے، کہہ رہی ہیں کہ کدھر چلے پیرومرشد، کیا اپنی عقل کے ساتھ ساتھ، ہم سب کا بیڑا بھی غرق کردینے پر کمر باندھ لی ہے، اور سب کی آنکھیں، ایک دوسرے کی طرف اُٹھ اُٹھ کر، یوں پوچھ رہی ہیں۔
——
؏ چیست، یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیر ما؟
(اب کے اے یاران ِ طریقت،ہم کیا تدبیر کریں؟)
——
اور دوسری طرف، حضرت کے صاحب ذکر معتقتدین میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے، وہ مٹّھیوں میں اپنی اپنی داڑھیاں پکڑ پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے آقا و مولیٰ کو آخر ہوکیا گیا ہے کہ وہ جوشؔ کے سے بد عقیدہ و بے یقین ملحد کو اپنی مسند پر بٹھاتے ہیں اور کلیجے سے لگاتے ہیں۔
جس کا نتیجہ ہے کہ اب ہم دونوں، ایک دوسرے سے گا گا کر یہ کہہ رہے ہیں:
’’میں تو ہوگئی بدنام، سنوریا تورے لیے!‘‘
بات یہ ہے کہ میرے احباب اور حضرت کے معتقدین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو چاہتے کیوں ہیں۔ ہم پر تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ :
——
؏ ہرکسے، از ظنّ خود، شُد یارِ من
وزدرونم، کس نجُست اَسرارِ من
(ہر کوئی میرا عاشق ہونے کا دعویدار تو ہے مگر
میرا رازِ دروں میرے اسرار کا متلاشی کوئی نہیں)
——
اُن بے چاروں کا یہ خیال ہے کہ حضرت شاہ صاحب اور میرے مابین جو محبت پائی جاتی ہے وہ اس امر پر مبنی ہے کہ شاہ صاحب کے عشق نے، میری عقل کے سامنے، یا، میری عقل نے اُن کے عشق کے آگے سِپر ڈال دی ہے۔ اور اُس کے ساتھ ساتھ:
——
تم ظلم چھوڑ دیتے، ہم ترک آہ کرتے
کچھ تم، نباہ کرتے، کچھ ہم نباہ کرتے
——
پر کاربند ہوکر حضرت کے تیّقن اور اس خاک سار کے تَفَحُص کے درمیان، چپکے سے مصالحت کی کوئی، مروت آمیز، صورت نکل آئی ہے۔
اُن لوگوں سے کوئی، ببانگ دُھل یہ بات کہہ دے کہ نابابا اس نوع کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے آپس میں ذرّہ برابر بھی لین دین نہیں کیا ہے۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے اصول و عقائد پر پہاڑوں کی طرح، ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس تاریخ تک کوئی ایسا قرینہ، دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہا ہے کہ میں، خدا نخواستہ، ایقان کی طرف مُڑ جاؤں گا، اور حضرت جادۂ تشکک پر گام زَن ہوجائیں گے (اللہ کرے گام زَن ہوجائیں) حضرت کا عشق مجھے پھسلا رہا ہے:
’’موری گلی آجا، ہو بالما‘‘
اور میری عقل، ٹھُنَک ٹھُنَک کر کہہ رہی ہے :
’’نجریوں سے بھردوں گی جی، چھونے نہ دوں گی شریر‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : قلم اٹھا تو لیا مدحِ مصطفیٰ کے لئے
——
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر شدید تخالُف، تباین اور تضاد کے باجود وہ کون سی طاقتور قدرِ مشترک ہے، جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کی محبت پر مجبور و مامور کردیا ہے۔ مجھ کو بابا ذہین شاہ کے دل کا حال معلوم نہیں، اس لیے قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ کو اس قدر کیوں چاہتے ہیں۔ اور وہ میری کون سی ادائے کفر ہے جو انھیں بھا گئی ہے۔ اس موقع پر ایک پرانی بات یاد آگئی، وہ سُن لیجیے، شاید اُس سے اس صورت حال پر کچھ روشنی پڑ سکے۔ ایک تھیں، خیرآباد کی، فیروزی بَجیا، اُن میں کسی قدر، سَنَک تھی، ایک دن وہ ملیح آباد آئیں اور اُمُ الشعرأ یعنی میری رفیقۂ حیات سے، بڑے استعجاب کے ساتھ کہنے لگیں بیٹا یہ بھَونرا خان اَذان کے بیچ میں میرا نام کیوں لیا کرتے ہیں۔ میری بیوی نے، مسکرا کر، ان سے کہا فیروزی بجیا کیسی باتیں کررہی ہو، اللہ اللہ کرو، ہم نے بھونرا خان کی اذان میں تمہارا نام کبھی سنا ہی نہیں، بولیں، ارے تم لڑکیوں کے تو کان ٹھپ ہوچکے ہیں۔ ابھی ابھی تو انھوں نے اذان دی تھی، اللہُ اکبر اللہُ اکبر، حَیّ علی الفلاح، فیروزی بَجیا تُوبہ، (بِضمّ ’’تا‘‘) میری بیوی نے کہا یہ بھونرا خان کو کیا لت لگ گئی ہے کہ عین اَذان کے بیچوں بیچ ’’فیروزی بجیا توبَہ‘‘ کہتے ہیں، یہ سُن کر انھوں نے کہا کہ وہ میرانام اذان کے بیچ میں اس لیے لیتے ہیں کہ میری کوئی ’’خوبو‘‘ (واو مجہول کے ساتھ) ان کو پسند آگئی ہے۔ سو اگر اس خاک سار سے کوئی دریافت کرے کہ شاہ صاحب تجھ کو چاہتے کیوں ہیں تو میں فیروزی بجیا کی طرح جواب دوں گا کہ حضرت کو میری کوئی ’’خوبو‘‘ پسند آگئی ہے۔
اس ’’خوبو‘‘ کی بات کو چھوڑ کر، میں اپنی ذات میں کوئی ایسا وصف نہیں پاتا کہ کوئی پیرِ خانقاہ، مجھ رندِ نامہ سیاہ سے محبت کرسکے۔
——
منتخب کلام
——
محمد سے ہر اک شے میں ہوا مفہومِ شے پیدا
ہدایت میں ہدایت کا ، نہایت میں نہایت کا
——
میرا درِ مقصد ہے مرے ہاتھوں میں
کیا دولتِ سرمد ہے مرے ہاتھوں میں
ہے کونسی نعمت جو نہ آئی مرے ہاتھ
دامانِ محمد ہے مرے ہاتھوں میں
——
کون کہتا ہے کہ اس بزم سے سرکار گئے
اب تو سرکار ہی سرکار ہیں ، اغیار گئے
——
مولا مولا لاکھ پکاریں ، مولا ہاتھ نہ آئے
لفظوں سے ہم کھیل رہے ہیں معنیٰ ہاتھ نہ آئے
——
ہر ذرہ ذہین کی ہستی کا تصویر ہے تیری سر تا پا
او کعبہ دل ڈھانے والے بت خانہ ہوں تو تیرا ہوں
——
حد ہوگئی فریبِ تصور کی اے ذہین
میں خود کو پیش کرتا ہوں اس کی مثال میں
——
جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا
شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مےخانہ بن جا
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم
——
تجھے دیکھنا ہے خدا طلب جو عطائے سرور دوسرا
کبھی مانگ سرور دوسرا سے خدائے سرور دوسرا
دل و دیدہ دونوں ہیں اصل میں دوسرائے سرور دوسرا
کہ یہاں کسی کا گزر نہیں ہے سوائے سرور دوسرا
یہ صفات حق ہیں جو بن گئی ہیں قبائے سرور دوسرا
کہ لقائے خالق دوسرا ہے لقائے سرور دوسرا
کوئی دوسرا نہیں دوسرا میں سوائے سرور دوسرا
کہ ازل سے قامت ذات پر قبائے سرور دوسرا
ابھر آئیں کعبہ کی عظمتیں نکھر آئیں عرش کی رفعتیں
یہ مکان خواجۂ لا مکاں یہ سرائے سرور دوسرا
قدم رسول کو چھوڑ کر نہ ہوا پہ اڑ نہ فلک پہ جا
سر عرش بھی ہے جھکا ہوا تہا پائے سرور دوسرا
ترے دل کی آنکھ اگر کھلے تو میں دیکھتا ہوں وہ دیکھ لے
کہ جبین کعبہ پہ نقش ہے کف پائے سرور دوسرا
مجھے آرزوئے مدینہ ہے رخ کعبہ سوئے مدینہ ہے
وہ اگر بنائے خلیل ہے یہ بنائے سرور دوسرا
وہ رسول ہیں وہ کریم ہیں وہ رؤف ہیں وہ رحیم ہیں
سنی ہم نے خالق دوسرا سے ثنائے سرور دوسرا
نہ جمی نظر میں شہ نشینی نہ کسی کی کج کلہی جچی
یہ ذہینؔ مست خدا مگر ہے گدائے سرور دوسرا
——
تو نے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا
اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشہ نہ بنا
عشق میں دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ بنا
جھوم کر بیٹھ گئے ہم وہیں مے خانہ بنا
یہ تمنا ہے کہ آزاد تمنا ہی رہوں
دل مایوس کو مانوس تمنا نہ بنا
دل بیتاب کو تسکین تبسم سے نہ دے
چشم مجنوں کے لئے محمل لیلیٰ نہ بنا
ذوق بربادی دل کو بھی نہ کر تو برباد
دل کی اجڑی ہوئی بگڑی ہوئی دنیا نہ بنا
منکر ہوش ہوں میں معتقد ہوش نہ کر
مست امروز کو محو غم فردا نہ بنا
یوسف مصر تمنا تیرے جلووں کے نثار
میری بیداریوں کو خواب زلیخا نہ بنا
نگہ ناز سے پوچھیں گے کسی دن یہ ذہینؔ
تو نے کیا کیا نہ بنایا کوئی کیا کیا نہ بنا
——
تری محفل میں تیری ہی محبت کھینچ لائی ہے
مرا ذوق نظر تیرا ہی شوق خودنمائی ہے
تجلی سے کبھی دل کی تسلی ہو نہیں سکتی
کہاں یہ آنکھ مانوس حجابات ضیائی ہے
محبت سے ہر اک شے میں ہوئے آثار شے پیدا
محبت کی خدائی ہے محبت ہی خدائی ہے
خدا یاد آ رہا ہے حسن ایماں سوز ساقی سے
کمال پارسائی آج ترک پارسائی ہے
بہاریں فرش ہو ہو کر بچھی جاتی ہیں گلشن میں
عروس صبح گل ہو کر جوانی مسکرائی ہے
ذھینؔ اس دہر میں ہے مد و جزر زندگی اس سے
محبت ساز دل پر جن سروں سے گنگنائی ہے
——
حوالہ جات
——
اقباس : بابا ذہین شاہ تاجی کے نعتیہ مجموعہ کا دیباچہ جوش کے قلم سے
شعری انتخاب از لمعاتِ جمال ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔