نظر ہوئی جو حبیبِ داور ! گھڑی بہت خوشگوار آئی

برس گئے ہیں سحابِ رحمت مرے چمن میں بہار آئی

وجود میرا مہک رہا ہے کہ کھل گئے ہیں گلاب دل کے

نسیم طیبہ دمِ سحر جھومتی ہوئی مشک بار آئی

پیام چپکے سے دے گئی ہے کہ شاہِ بطحا بلا رہے ہیں

سنا جو پھردل پہ ہاتھ رکھ کر یہی ندا بار بار آئی

جو پڑھ رہی ہیں درود سانسیں تو روح بھی جگمگا اٹھی ہے

سو چاندنی کا سماں ہے ہر سو ضیا رُخِ نور بار آئی

مرے تصور میں آرہے ہیں وہ پیارے پیارے حسین منظر

کبھی جو گزرے تھے دن وہاں ان کی یاد بن کر قرار آئی

کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے خوشی کے لمحات آ رہے ہیں

اے ناز جاگے ترے مقدر ہے رحمتِ کردگار آئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]