اردوئے معلیٰ

Search

نظمِ نو آ گیا، انصاف نرالا دے گا

بیچ کر مجھ کو مرے منہ میں نوالا دے گا

 

فرق مٹ تو گئے مابین سفید و سیہ اب

اور کتنا یہ نیا دور اُجالا دے گا

 

جس کی خاطر میں نے پہچان گنوائی اپنی

اب وہی میرے تشخص کو حوالہ دے گا

 

سر جھکاتا ہے پذیرائی کے انداز میں آج

کل یہی شہر ہمیں دیس نکالا دے گا

 

اور کیا دے گا تجھے بندۂ حاجت اے خدا

نذر میں اپنا یہی خالی پیالہ دے گا

 

گنگنائے گا مرا شعر ہر اک صاحب ذوق

اور مجھے دادِ سخن سوچنے والا دے گا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ