نعمتِ زیست وہ کچھ ایسے عطا کرتے ہیں

ہاتھ وہ ڈوبتوں کا تھام لیا کرتے ہیں

وہ کوئی دشمنِ جاں ہو کہ کوئی دل کا حبیب

اللہ والے تو دعائیں ہی دیا کرتے ہیں

ٹھوکریں مار دیں دنیا کی شہنشاہی کو

آپ کی جو بھی غلامی میں رہا کرتے ہیں

دور ہیں شہرِ مدینہ کی فضاؤں سے جو

تم ہی بتلاؤ کہ وہ خاک جیا کرتے ہیں

ان کی محفل میں برستے ہیں خزانے واللہ

دامنِ زیست کو رحمت سے بھرا کرتے ہیں

اُن کی پرواز کو سمجھے کوئی کیسے تنوؔیر

جو پرندے بھی درود ان پہ پڑھا کرتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]