نہیں جناب ، کسی اور کی امانت ہیں

ہمارے خواب کسی اور کی امانت ہیں

ہمیں یہ کہہ کے اداسی نے کردیا پھیکا

یہ رنگ و آب کسی اور کی امانت ہیں

دنوں مہینوں رتوں اور موسموں میں کٹے

یہ سب حساب کسی اور کی امانت ہیں

سوال ، عشق کا کرنے سے پیشتر سن لے

مرے جواب کسی اور کی امانت ہیں

مرے وجود کو پڑھنے کی ضد نہ کر پاگل

تمام باب کسی اور کی امانت ہیں

تو چھوڑ بچپنا ، تو جانتا تو ہے ناں ، ہم

دلِ عذاب ! کسی اور کی امانت ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]