نہ جانے سوچ کے کیا بات سر جھٹکتا ہے

وہ شخص جو کہ خلاؤں کے پار تکتا ہے

وہ بے دلی ہے کہ دل عشق میں نہیں لگتا

وہ برہمی ہے کہ اپنا بدن کھٹکتا ہے

وہ کیفیت کہ کوئی نام ہی نہیں جس کا

خیال دشتِ سوالا ت میں بھٹکتا ہے

وہ تیرگی ہے کہ ٹھوکر قدم گِنی جائے

وہ فاصلہ ہے کہ دل سوچ کے بھی تھکتا ہے

یہ ایک درد کوئی شکل ہی نہیں جس کی

کسی بھی وقت کوئی روپ دھار سکتا ہے

شکستِ خواب کے ایندھن میں تر بتر ہو کر

وجود گرمیِ انفاس سے بھڑکتا ہے

گمان ہے کہ نکلتا ہے بس کوئی دم میں

وہ ایک دم کہ بڑی دیر سے اٹکتا ہے

قضا کی بین بلاتی ہے دور سے جیسے

گماں کی ریت پہ ایسے بدن سرکتا ہے

تو بولتا ہے ، مگر بولتا ہے کیا جانے

ترا فقیر ترے آر پار تکتا ہے

سخنوری کی ہوس میں فریب خوردہ دل

جنون و کرب میں بس اول فول بکتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]