نہ سیم و زر نہ گہر بیچ کر ادا ہو گا

وفا کا قرض ہے، سر بیچ کر ادا ہو گا

زمیں کا قرض ہے جتنا مری اڑانوں پر

غرورِ بازو و پر بیچ کر ادا ہو گا

چکانے نکلا ہوں میں کاسۂ گدائی لئے

جو قرض کاسۂ سر بیچ کر ادا ہو گا

لبوں سے حرفِ محبت بہ لہجۂ تسلیم

متاعِ قلب و جگر بیچ کر ادا ہو گا

ہے یرغمالِ ضرورت جو دل تو پھر تاوان

انا کو بارِ دگر بیچ کر ادا ہو گا

محبتوں کے سفر میں ظہیؔر حقِ سفر

تمام زادِ سفر بیچ کر ادا ہو گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]