نہ پُھول کی نہ کسی نافۂ غزال کی ہے

سُخن کے دشت میں خوشبو ترے خیال کی ہے

زمیں سے تا بہ فلک روشنی کمال کی ہے

فضا میں آج شباہت ترے جمال کی ہے

نہ دیکھ بالکنی سے غُروب کا منظر

جمالِ یار ! سنبھل ، یہ گھڑی زوال کی ہے

ترا نہ ہونا بھی اب تو ہے تیرے ہونے سا

فراق میں بھی مری کیفیت وصال کی ہے

میں تجھ کو دیکھ کے ہنستا ہوں اور سوچتا ہوں

پرائی چیز سہی ، چیز تُو کمال کی ہے

نگاہِ یار بھلے بے نیاز ہو فارس

نگاہِ یار ہی محرم تمہارے حال کی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]