ورثۂ درد ہے تنہائی چھپا لی جائے

اپنے حصے کی یہ جاگیر سنبھالی جائے

کون دیکھے گا تبسم کی نمائش سے پرے

ٹوٹی دیوار پہ تصویر لگا لی جائے

چہرے پڑھنا بھی اُسے آہی گیا ہو شاید

غم زدہ چہرے پہ مسکان سجالی جائے

اختلافات نہ بن جائیں تماشہ اے دوست

بیچ میں اب کوئی دیوار اٹھا لی جائے

اپنی رفتار سے اب آوٴ گزاریں دن رات

وقت کے ہاتھ سے زنجیر چھڑا لی جائے

آنکھ بھر آئے کسی کی، نہ دُکھے دل کوئی

ایسی تقریبِ ملاقات نکالی جائے

نہ ہی ادراکِ انا جس کو، نہ پاسِ اقدار

اُس مسیحا سے بھلا کیسے دوا لی جائے

کیا سنائیں تمہیں ہم شہر یقیں کے حالات

لوگ کہتے ہیں کہ امید اٹھا لی جائے

ورنہ شمشیر بچے گی نہ بچیں گے بازو

وار کرنا ہے تو پھر وار نہ خالی جائے

جان کیا چیز ہے بن آئے جب عزّت پہ ظہیرؔ

سر بچے یا گرے، دستار بچا لی جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]