وضاحت

تمہیں کیا خبر ہے محبت کی دیوی
کہ جب شہرِ وحشت کی وسطی گلی میں
تمہاری مسافت کا بِیڑا اٹھا کر
تجسس پہ زینیں کسی جا رہی تھیں
تو کچھ لوگ ایسے تھے جو برہنہ پاء
مسافت کے آگاز کے منتظر تھے
اگرچہ بدن پر جو پوشاک تھی ، وہ
بدن کی طوالت سے کم پڑ رہی تھی
کوئی زادِ راہِ محبت نہیں تھا
نہ دام و درم نہ زر و سیم کوئی
یہاں تک کہ ان کو وداع کرنے والی
کوئی آنکھ تھی نہ کوئی ہاتھ ہی تھا
وہ ہجرت بھی کرتے تو ان کی کمی کو
کوئی بھی نہیں تھا کہ محسوس کرتا
تمہیں کیا خبر ہے محبت کی دیوی
گئی عمر میںجب تمہاری مسافت
بدن کو مشقت نہیں لگ رہی تھی
تو چلنے کا انداز بھی مختلف تھا
یہی پا برہنہ وفورِ تجسس میں
صرصر کی مانند بڑھنے لگے تھے
وہی جو ہمیشہ ہراک کارواں کی
اڑائی ہوئی گرد میں غرق ہوتے
مچل کر اٹھے تو
ہر اک کارواں گردِ رہ بن گیا تھا
وہ پر عزم پر جوش نادان انساں
ہوئے تند ایسے کہ جب راستے میں
تمہارا دریچہ کھلا بھی ، تو ان میں
ٹھہرنے کی طاقت ہی باقی نہیں تھی
وہ رکنے کے انداز گم کر چکے تھے
تمہیں کیا خبر ہے محبت کی دیوی
کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں راستے میں
مسلسل نظر جن کی تم پر جمی ہے
اگرچہ وہ تم سے پرے جا رہے ہیں
مگر الٹے قدموں چلے جا رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]