وقت جیسے کٹ رہا ہو جسم سے کٹ کر مرے

کوئی مرتا جا رہا ہے جس طرح اندر مرے

اب مری وحشت تماشہ ہے تو ایسے ہی سہی

اب تماشائی ہی بن کے آ ، تماشہ گر مرے

روکتا ہی رہ گیا کہ عشق کو مت چھیڑنا

یہ بلا بیدار ہو کر آن پہنچی سر مرے

پھونک دی نہ روح آخر تم نے اندیشوں میں بھی

سچ ہوئے جاتے ہیں سارے خوف سارے ڈر مرے

شہر بھر میں کوئی بھی تنہا نہ تھا میرے سوا

لوٹ آئی ہے تھکی ہاری اداسی گھر مرے

عشق پیشہ لوگ تو ہیں عشق پیشہ آج بھی

تو سنا کس حال میں زندہ ہے پیشہ ور مرے

اٹ گئی ہیں دھول سے روزن میں ہی آنکھیں مری

دستکوں کی آس میں پتھرا گئے ہیں در مرے

داؤ پر جیسے لگا ہو آسمانوں کا بھرم

خوف کے مارے وہ کاٹے جا رہا ہے پر مرے

بدنمائی موت ہے تیرے لیئے تو میں سہی

جا تجھے آزاد کرتا ہوں پری پیکر مرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]