وہیں تو عشق رہتا ہے

جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں

جہاں غم گیت گاتے ہیں، جہاں ہر درد ہنستا ہے

وہیں ہے گھر محبت کا، وہیں تو عشق رہتا ہے

جہاں حدِ نظر تک نیلگوں گہرے سمندر کے

سنہری ساحلوں پر دھوپ کوئی نام لکھتی ہے

ہوا کی موج بکھرے بادلوں سے رنگ لے لے کر

شفق کی زرد تختی پر گلابی شام لکھتی ہے

جہاں اقرار و پیماں کے گھنے شیشم تلے سورج

نئے اک دن کی خاطر تیرگی کے وار سہتا ہے

جہاں اک آس کی خوشبو میں لپٹا یاس کا سایہ

کسی کی نظم لکھتا ہے، کسی کے شعر کہتا ہے

اداسی جب کبھی دل پر کمندیں ڈال دیتی ہے

تھکن جب دھڑکنوں میں نا امیدی گھول دیتی ہے

تو اُس لمحے دبے پاؤں کسی احساس کا پیکر

قریب آ کر بجھی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے سے

دبی سرگوشیوں کے نرمگیں لہجے میں کہتا ہے

” یہ غم میری امانت ہے، تم اِس سے ہار مت جانا

تمہیں میری قسم دیکھو کبھی اُس پار مت جانا

جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں

جہاں کوئی نہیں بستا، جہاں کوئی نہیں رہتا”

">پلٹ کر دیکھئے اُس پل تو کوئی بھی نہیں ہوتا

بس اک موہوم سی آہٹ اور اک مانوس سی خوشبو

فضا میں جیسے بکھری ہو، ہوا جیسے مہکتی ہو

تبسم کی چنبیلی اور ترنم کے گلابوں سے

ڈھکے ٹیلوں کے دامن میں، ذرا سی دور خوابوں سے

منقش جھلملاتی یاد کی پگھلی ہوئی چاندی

کا اک آئینہ بہتا ہے

وہیں تو گھر ہمارا ہے، وہیں تو عشق رہتا ہے

وہیں تو عشق رہتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]