وہ حسنِ حقیقت جو سرِ عرشِ بریں ہے

مستور وہی ذات رگِ جاں سے قریں ہے

ہر چیز میں ہے جلوہ فگن ذات اسی کی

ظاہر میں اگرچہ کہیں موجود نہیں ہے

تسبیح کناں ارض و سما جنّ و ملائک

سجدے میں جھکی عجز سے ہر ایک جبیں ہے

آفاق ازل سے ہے اسی کُن کی گواہی

جس کُن سے ہر اک قلب میں وہ آپ مکیں ہے

خورشید جہاں تاب تِری ایک تجلی

مہتاب کی کرنوں میں ترا نقش نگیں ہے

کلیوں کا تبسم ہو کہ بلبل کا ترنم

ہر حسن کے پردے میں وہی پردہ نشیں ہے

قابل نہیں میں گرچہ ترے لطف و کرم کا

رحمت پہ تری مجھ کو مگر پختہ یقیں ہے

اے حسنِ ازل ، مجھ کو عطا قربتِ احمد

ذیشاں کی یہی اب تو تمنائے حزیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]