وہ شمع علم کہ نور اس کا خانہ خانہ ملا

وہ ابر لطف کہ فیض اس کا دانہ دانہ ملا

اتر کے غار حرا سے بڑھا جو سوئے حرم

حرم کو رحمت یزداں کا شامیانہ ملا

جہان فکر و عمل پر عجب بہار آئی

دل و نگاہ کو انداز معجزانہ ملا

خدا نے ان کو عطا کی جوامع الکلمی

سخن سخن میں معارف کا اک خزانہ ملا

مری نظر میں ابو جھل ہے تو یہ کچھ ہے

انہیں جمال دکھانے کا اک بہانہ ملا

کہاں جمود و تعطل ہے ان کی راہوں میں

کہ نقش پا بھی وہاں جو ملا روانہ ملا

زہے عروج کہ پاؤں تلے شب اسریٰ

نگاہ طائر سدرہ کو آشیانہ ملا

فراز عرش سے لوٹے تو راستے میں انہیں

غبار راہ میں لپٹا ہوا زمانہ ملا

ابھی قبول سے خارج ہے تیری نعت اے نذر

کچھ اور اس میں تب و تاب عاشقانہ ملا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]