وہ عجیب خانہ بدوش تھا

وہ عجیب خانہ بدوش تھا
سرِ شام ناقۂ عشق پر مرے دل کے گاؤں میں آ گیا
تو کچھ ایسی مست ہوا چلی
کہ گلی گلی
میں ہزاروں پُھول مہک اُٹھے
مرے اونگھتے ہوئے بام و دَر بھی چہک اُٹھے
مجھے یُوں لگا
کہ پلک جھپکتے ہزاروں سال گذر گئے
مگر اُس سمے کسے ہوش تھا کہ سرکتے وقت کو روکتا
کسے ہوش تھا

وہ عجیب خانہ بدوش تھا
سرِ شام چُپکے سے آ گیا
مگر اس سے پہلے کہ چاندنی مرے گھر کے صحن میں جھانکتی
وہ چلا گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]