پادشاہا! ترے دروازے پہ آیا ہے فقیر

چند آنسو ہیں کہ سوغات میں لایا ہے فقیر

دیکھی دیکھی ہوئی لگتی ہے مدینے کی فضا

اس سے پہلے بھی یہاں خواب میں آیا ہے فقیر

اہل منصب کو نہیں بار یہاں پر لیکن

میرے سلطان کو بھایا ہے فقیر

اب کوئی تازہ جہاں خود اسے ارزانی کر

کہ جہان دگراں سے نکل آیا ہے فقیر

اس کو اک خواب کی خیرات عطا ہوجائے

کہ جسے دید کی خواہش نے بنایا ہے فقیر

اک نگہ جب سے عنایت کی ہوئی ہے اس پر

اک زمانے کی نگاہوں میں سمایا ہے فقیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]