پایا گیا ہے اور نہ کھویا گیا مجھے

میرا ہی ہاتھ تھام کے رویا گیا مجھے

میں سخت جان جھیل گیا طنزیہ ہنسی

سو میرے آنسووں میں ڈبویا گیا مجھے

کہنے کو چشم نم سے بہایا گیا ہوں میں

لیکن پلک پلک میں پرویا گیا مجھے

آخر کو میں سفید لبادے ہہ داغ تھا

مل مل کے اضطراب میں دھویا گیا مجھے

پھوٹوں بھی اب تو کون سے منہ سے تمہی کہو

جب ریگزار مرگ میں بویا گیا مجھے

وہ نوکدار کانچ کے ٹکڑوں سا خواب پھر

آنکھوں کے موندتے ہی چبھویا گیا مجھے

ناصر میں زیب تن ہوں کسی کے کہ آج بھی

دامن کے ساتھ ساتھ بھگویا گیا مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]