پردۂ ہجر نگاہوں سے سرکتا دیکھوں

آخرِ شب مہِ طیبہ کو چمکتا دیکھوں

ہر نئی شام نیا رنگِ تمنا لائے

شوقِ دیدار کے غنچوں کو چٹکتا دیکھوں

سبز گنبد مری آنکھوں میں سمائے ایسے

آنسوؤں میں بھی یہی رنگ جھلکتا دیکھوں

یاد آئیں مجھے اُس دانشِ کُل کی باتیں

جب کسی دور کے انساں کو بھٹکتا دیکھوں

ایک اعزاز ہے اُس کے در کا سوالی ہونا

کسی سائل کو نہ اُس در پہ جھجکتا دیکھوں

جب بھی فریاد کے لہجے میں کہوں نعتِ نبی

بحرِ رحمت کو کناروں سے چھلکتا دیکھوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]