پھر لگا ہے دوستوں کا تازیانہ مختلف

تیر دشمن کی طرف ہیں اور نشانہ مختلف

بے نیازی برطرف، اب لازمی ہے احتیاط

وقت پہلا سا نہیں اب، ہے زمانہ مختلف

آشیانہ چھوڑنے کی اک سزا یہ بھی ملی

روز لاحق ہے تلاشِ آب و دانہ مختلف

اک شکم پرور زمیں رکھتی ہے پابستہ مجھے

اور وفائیں مانگتی ہیں اک ٹھکانہ مختلف

دوسرا رخ بھی وہی نکلا تری تصویر کا

کاش ہوتا کچھ حقیقت سے فسانہ مختلف

اپنے بچوں کو ظہیرؔ انسانیت کا درس دو

نفرتوں کے شہر میں رکھو گھرانہ مختلف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]