چاہت کی اک خاص نشانی کھو جائے

مجھ سے گر اک شام سہانی کھو جائے

طیش کا عالم اور نگاہوں میں آنسو

جیسے اِک راجہ کی رانی کھو جائے

تم چہرا ڈھلنے سے پہلے لوٹ آنا

شاید مجھ سے مِری جوانی کھو جائے

حیرت جھانک رہی ہے گم سم آنکھوں سے

جیسے اُسکی آنکھ کا پانی کھو جائے

پاگل بن کر سر کھجلاتا رہتا ہوں

جب تیری تصویر پرانی کھو جائے

زینؔ کسے پروا ہے شوقِ دید لیے

شہر کی بھیڑ میں اک دیوانی کھو جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]