چلتے چلتے جو نظر شہرِ مدینہ آیا
خود بخود زیرِ قدم اوج کا زینہ آیا
مشک و عنبر کا بھلا اس سے تقابل کیسا
میرے آقا کے بدن پر جو پسینہ آیا
بحرِ عصیاں کے تلاطم میں گھرے تھے لیکن
نامِ سرکار سے ، ساحل پہ سفینہ آیا
جس نے تھاما ہے شہِ کون و مکاں کا دامن
اس کے ہاتھوں میں ہی رحمت کا خزینہ آیا
قانع و صابر و درویش تھے صفّہ والے
ہاتھ میں شاذ کبھی نانِ شبینہ آیا