چلتے چلتے جو نظر شہرِ مدینہ آیا

خود بخود زیرِ قدم اوج کا زینہ آیا

مشک و عنبر کا بھلا اس سے تقابل کیسا

میرے آقا کے بدن پر جو پسینہ آیا

بحرِ عصیاں کے تلاطم میں گھرے تھے لیکن

نامِ سرکار سے ، ساحل پہ سفینہ آیا

جس نے تھاما ہے شہِ کون و مکاں کا دامن

اس کے ہاتھوں میں ہی رحمت کا خزینہ آیا

قانع و صابر و درویش تھے صفّہ والے

ہاتھ میں شاذ کبھی نانِ شبینہ آیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]