ڈھونڈ کر لائے تھے کل دشتِ جنوں کا راستہ

اب جنونِ عشق کا مرہم تلاشہ جائے گا

آئیگا وہ وقت جس کی آس تک موہوم ہے

جائے گا یہ درد جو ہے بے تحاشہ ، جائے گا

پھر ترے کوچے کی رونق ہیں فدایانِ جنوں

جس طرف جائے تماشہ گر، تماشہ جائے گا

کب تلک مالِ غنیمت میں جواہر آئیں گے

معرکہ گاہوں سے گھر اس بار لاشہ جائے گا

کل تلک جو ہاتھ اور آنکھیں سلامت رہ گئیں

سنگِ وحشت سے کوئی پیکرتراشہ جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]