کارِ وفا محال تھا، ناکام رہ گیا

قصّہ مرا بھی تشنۂ انجام رہ گیا

شب کو بھی میں چھڑا نہ سکا رہن درد سے

دن بھی اسیر گردشِ ایّام رہ گیا

ظلمات پُر فریب میں اُلجھی رہی نظر

محروم دید ماہ سر بام رہ گیا

تصویرِ جاں کو حسرتِ تکمیل ہی رہی

اک نقشِ آرزو تھا کہ بس خام رہ گیا

تکتا ہوں چھوٹ کر بھی کمیں گاہِ دہر کو

دل جیسا اک اسیر تہِ دام رہ گیا

غارت گر سخن تھی ہوائے خیالِ ہجر

بجھ کر چراغِ حرف سر شام رہ گیا

اک خواہش دوام کہ تھی ضامن کمال

رخصت ہوئی تو نقش ہنر خام رہ گیا

ہر تہمتِ جنوں سے تو ہم ہو گئے بَری

سر پر دفاعِ ہوش کا الزام رہ گیا

احوال کیا سنائیں جنابِ ظہیرؔ کا

عرصہ ہوا کہ مر گئے بس نام رہ گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]