اردوئے معلیٰ

Search

کبھی اُن کے آستاں پہ اپنی جبیں جھُکانا

کبھی اُن کے نقشِ پا پہ دیدہ و دِل بچھانا

 

اُنھیں آپ خود بُلاتے، ہیں نوازتے بھی اُن کو

درِ مصطفی پہ جن کا رہتا ہے آنا جانا

 

تھا میں در بدر مسافر، خانہ بدوش، بے گھر

سرکار کی گلی میں مجھے مل گیا ٹھکانہ

 

تہی دست تھا، تونگر، مجھے آپ نے کیا ہے

مجھے آپ نے سکھائی رہ و رسمِ عاشقانہ

 

یہ جو عشقِ مصطفی ہے، یہ حضور کی عطا ہے

ہے یہی مرا اثاثہ، ہے یہی مرا خزانہ

 

مرا وقتِ آخریں ہے، سرکار آ رہے ہیں

جب تک نہ آپ آئیں، مری موت! تُو نہ آنا

 

یہ ظفرؔ کی التجا ہے، یہی عرضِ مدُعا ہے

وہی دورِ مصطفی سا آئے لوٹ کر زمانہ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ