کسے نہیں تھی احتیاج حشر میں شفیع کی

ہوئی نگاہِ لطف بات بن گئی جمیع کی

وہ ٹالتا نہیں ہے یا حبیب تیری بات کو

سماعتیں لگی ہیں تیری بات پر سمیع کی

فراق نے حصار میں لیا ہوا تھا روح کو

کرم ہوا عطا ہوئی مجھے گلی وقیع کی

یہ ملتجی کئی دنوں سے تھا برائے حاضری

سنی گئی حضور کے غلام کی، مطیع کی

درودِ پاک سے بنایا سائبان حشر میں

لحد حبیبِ کبریا کے ذکر سے وسیع کی

خدا نے رفعتوں کی حد کہاں بتائی ہے ہمیں

خدا ہی جانتا ہے بس بلندیاں رفیع کی

اگر نہ موت ہو نصیب مجھ کو شہرِ نور میں

تو خاک ڈال دیجئے گا قبر میں بقیع کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]