کس خرابے میں یہ انسان چلے آتے ہیں
زندگی کرنے کو نادان چلے آتے ہیں
تم مجھے رہ سے ہٹاؤ گے تو پچھتاؤ گے
میرے سائے میں تو طوفان چلے آتے ہیں
جس طرف جلوہ نما ہوتا ہے وہ، سارے لوگ
آئنے تھام کے حیران چلے آتے ہیں
دردو غم اب مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے
تیرے جاتے ہی یہ مہمان چلے آتے ہیں
ہنس رہا ہوں کہ مرا نقش قدم ڈھونڈتے لوگ
اپنے انجام سے انجان چلے آتے ہیں