کس طور اُن سے آج ملاقات ہم کریں

گریہ کریں کہ شکوۂ حالات ہم کریں

کچھ دیر کو سہی، پہ ملے درد سے نجات

کچھ دیر کو تو دل کی مدارات ہم کریں

مانا کہ اُن کی بزم میں ہے اذنِ گفتگو

اتنا بھی اب نہیں کہ سوالات ہم کریں

جب تک ہیں درمیان روایات اور اصول

دشمن سے کیسے ختم تضادات ہم کریں

وقتِ عمل ہے دوستو! اب کیسا انتظار

آتے رہیں گے لوگ شروعات ہم کریں

سجدے میں سر جھکے ہیں مگر دل میں وسوسہ

الحمد ہم کہیں کہ مُناجات ہم کریں

شکوے سبھی لبوں پہ زمانے کے ہیں ظہیرؔ

آؤ ذرا سا ذکرِ عنایات ہم کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]