کس قدر مصروفیت ہے

کس قدر مصروفیت ہے ، الحذر
کس قدر مصروفیت ہے ، الاماں
ساعتیں ہیں وقت کے منہ زور گھوڑے پر سوار
اُڑی جاتی ہیں غضب رفتار سے
کام دھندے اَن گنت ہیں ، مسئلے ہیں بے شمار
کوئی لمحہ بھی خیالِ یار کا لمحہ نہیں

ہو گیا ہے زندگی کی جھیل سے ٹھہراؤ گُم
وصل تو کیا ، وصل کی خواہش کی بھی فرصت نہیں
حشر ایسا ہے کہ مُٹھی بھر سکوں ملتا نہیں

روز ہی میں سوچتا ہوں
آج کے دن سب ادھورے کام نمٹا لوں گا میں
اپنی خواہش کے مطابق وقت کو ڈھالوں گا میں
خود سے پیچھے رہ گیا ہوں ، آج اپنے آپ کو جا لُوں گا میں

کل سے روزانہ گُلوں سے گفتگو ہو گی مری
سارے رُوٹھے موسموں کو چائے پر بُلواؤں گا
حلقۂ احباب یعنی سب پرندوں کو منا کر لاؤ ں گا

سب کروں گا ، خود سے وعدہ ہے مرا
!سب کروں گا لیکن اے میرے تھکے ہارے بدن
آج کے دن سب ادھورے کام نمٹانے کے بعد
آج کے دن زندگی کو وقت پر لانے کے بعد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]