کس کو سامع کرے سخن میرا

رائیگاں جا رہا ہے فن میرا

آنچ کچھ کم نہ تھی محبت کی

اب چٹخنے لگا ہے تن میرا

میں کہ اپنا ہی بن نہیں پاتا

کیا کہوں گا تجھے کہ بن میرا

رہنِ بے چارگی ، ترے جلوے

رزقِ آشوب ، بانکپن میرا

رُوح کی پیاس بجھ نہیں پاتی

سخت مشکل میں ہے بدن میرا

شوقِ عُریاں نے ستر پوشی کی

زخم ٹھہرے ہیں پیرہن میرا

مات ہر چال پر مقدر ہے

بیچتا خاک ہے چلن میرا

ائے رمیدہ ، گریز پاء خواہش

تجھ سے آباد تھا ختن میرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]