کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں

میری آواز گر نہیں آتی

داغ دل گر نظر نہیں آتا

بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]